Wednesday, December 14, 2011

روشن دریچے

رات میری دہلیز پر  آ بیٹھی ہے، اسے بھگا دو
نیند آنکھوں میں سو گئی ہے، اسے جگا دو

قطرہ قطرہ سم میں بھگو کر جو لفظ لکھے تھے، انھیں مٹا دو
موہوم منظر، چھلکتی یادیں، بیدار سوچیں، انھیں سلا دو

مجھے بتا دو
جن چہروں پر نظر کروں میں انہی پر کانٹے کیوں اگ آتے ہیں
ہوا میں تیرتے ہیں لفظ سارے
پکڑنے بیٹھوں تو فنا کی گھا ٹی اترتے جاتے ہیں
پیروں  میں گردش کا سفر ہے جاری
وجہ بتا دو

آوازیں زبان کی تلاش میں چکراتی ہیں، انھیں کوئی راہ دو
برستی دھوپ میں وہ جو چڑیا اداس بیٹھی ہے ، اسے ہنسا دو

دہلیز پر اندھیرے کے قدم روکو ،  اسے کہو کہ  ہمیں بھلا دو
روشنی دریچے میں آ رکی ہے، اسے جگہ دو
اسے بلا دو

Sunday, August 21, 2011

ایک بھولی بسری نظم

ایک بھولی بسری نظم
(اور کچھ بھولی بسری سہیلیاں )

اس بستی میں وہ لڑکی رہتی تھی
پھولوں سے باتیں جو کرتی تھی
میں نے کب اس کو دیکھا تھا
ہاں اوروں سے میں سنا کرتی تھی
کہ پیروں میں بادل کا ٹکڑا تھا
ہاتھوں میں چاند لیے پھرتی تھی
آنکھوں میں جگنو چمکا کرتے تھے
چہرے پر دھنک سجی ہوتی تھی
سب کے جیسی ہو کر بھی جو
سب سے الگ ہی لگتی تھی
پھر اک دن میں نے بھی اسے  دیکھا تھا
صبح تھی شاید دوپہر ڈھلی تھی
بادل برس کر بکھر گئے تھے
دھوپ بھی نکھری نکھری سی تھی
سر پر دھوپ کا آنچل تھا
آنکھوں میں ساون کی جھڑی تھی
جگنو چمک اٹھے تھے پھر سے
جانے میں نے کیا بات کہی تھی 
اندھیرے جنگل میں دیے کے جیسی
کیسی روشن اس کی ہنسی تھی

برسوں پہلے کی اک لڑکی کی
مجھ کو بھولی بسری یاد آئی تھی
سب سے الگ ہو کر بھی جو
سب کے جیسی ہی لگتی تھی
اندر ساون ٹھہر گئے تھے
اور آنکھ میں جس کی ریت بسی تھی
بادل مل کر رو دیتے تھے
جب اس کے اندر بارش ہوتی تھی
پھر دن سے پہلے دن نکلا تھا
وہ شام سے پہلے ڈوب گئی تھی
ہاتھوں میں سورج لے کر
وہ بھی یونہی ہنسا کرتی تھی    

Saturday, May 28, 2011

می رقصم

 
تم نے جلتے دیے کو دیکھا ہے ؟
جب ہوا کی آہٹ سے
دیے کی لو لرزتی ہے 
بجھنے سے ڈرتی ہے.. 
تم نے بجھتے دیے کو دیکھا ہے ؟
بجھنے سے پہلے جب 
اس کی لو بھڑکتی ہے 
کیسے رقص کرتی ہے

Saturday, May 21, 2011

بارش کے رنگ

ٹوٹتے بنتے خواب اور بارش کی آواز
مدھر سی اک لے پر جلتا بجھتا سا ز
بارش کے دو رنگ
الگ الگ آہنگ
اک بارش کے اِس پا ر  ،اک بارش کے اُس پا ر
بارش کے اِس پا ر ، گئے دنوں کی اڑتی گرتی دھول
آنے والے لمحوں کے کچھ کانٹے اور ببول
اور بارش کے اُس پا ر  ؟
بارش کے اُس پا ر، کچھ بیلے کے پھول!!

Tuesday, April 12, 2011

خوف

میں  خواب میں سیڑھیاں دیکھتی ہوں
زینہ د ر زینہ
بہت اوپر ، محدود  سے لا محدود تک جاتی ہوئی
میں اپنے اندر ان  پر چڑھنے کی ہمت  نہیں پاتی
مگر کسی ایک سیڑھی پر کھڑے ہوے
میں جب واپس اترنا چاہتی ہوں
تو میرے پیر ڈگمگا جاتے ہیں
اور گرنے کے خوف سے
میری آنکھ کھل جاتی ہے

Wednesday, March 30, 2011

میاں جولاہے ! کیا بنتے ہو؟

(حصّہ دوم )

سچ کہتے ہو،میاں جولاہے ،جب کہتے ہو
سرد اور تنہا رات اندھیری
ایسی تاریکی میں  بیٹھے،ہم سے پوچھو کیا بُنتے ہیں؟
کیا بنتے ہیں؟ میاں جولاہے! سن سکتے ہو؟
دھرتی کے سارے رنگوں سے
تم جو موسم بنتے ہو، چہرے بُنتے ہو
کرنیں اور شبنم بُنتے ہو
ان رنگوں میں اک رنگ ہے
راج ہنس کے پروں کے جیسا
بے پانی بادل کے جیسا
اس تاریکی میں چپ چپ بیٹھے
اس رنگ سے ،کسی مرنے والے کا کفن بُنتے ہیں
اپنا کفن خود بُن سکتے ہو؟

صبح سے لے کر شام ڈھلے تک
زندگی کا کر گھا پھیلائے
آس کا تا نا یاس کا با نا
اس تانےبانے میں الجھے
روز نیا اک دکھ  بُنتے ہیں..
میاں جولاہے! تم جو بیٹھے سکھ چنتے ہو
روز نیا دکھ بُن سکتے ہو؟؟؟
 
یہ نظم سروجنی نائیڈو کی ایک نظم سے متاثر ہو کر لکھی گئی تھی

Tuesday, March 8, 2011

کسک

ہنسی حلقوم میں پھنستی ہے
دل ہے یا زخم ہے کوئی
رہ رہ کے ٹیس اٹھتی ہے

Wednesday, February 23, 2011

میاں جولاہے ! کیا بنتے ہو؟

(حصّہ اول )

صبح سے لے کر رات گئے تک
ایسے سنجیدہ سے بیٹھے، کچھ  سنتے ہو؟
میاں جولاہے! کیا بُنتے ہو؟

 تم کیا جانو کیا بُنتا ہوں؟
روز نیا سپنا بُنتا ہوں
ڈالی ڈالی گندم لے کر
کھیتوں میں سونا بُنتا ہوں

بوند بوند ساگر لے کر
صحراؤں کے لئے با دل بُنتا ہوں
کرن کرن تا رے لے کر
دلہن کا آنچل بُنتا ہوں

پلکوں پلکوں چن  کر آنسو
ساون کی رم جھم بُنتا ہوں
بچوں کی ہنسی کو لے کر
گیتوں کی سرگم بُنتا ہوں

بیتے کل اور آج کا تا نا با نا لے کر
آنے والے کل کی خاطر
خوابوں کا ریشم بُنتا ہوں

خواہش

اس اندھیرے کے پا ر کیا ہے؟
کوئی مجھے روشنی لا دے
تو میں اس اندھیرے میں اتر کے دیکھوں

Tuesday, February 15, 2011

حسرت

 با دلوں  سے اوپر تک
پہنچ  میری ہوتی جو
آسمان کو چھو لیتی
زمین ساتھہ  دیتی تو

Thursday, February 3, 2011

ایک سہیلی



نہ اس کے  لانبے گیسو ہیں
نہ اس کے نیناں آہو ہیں

نہ روپ کوئی نہ رنگ کوئی
نہ سُر  ہے نہ سارنگ کوئی

وہ جو سمندر سنگ لئے
دریاؤں سا آہنگ لئے
دھیرے دھیرے بہتی ہے
یہ دنیا بھی سچ کہتی ہے

مگر کیا میں ان  آنکھوں کو جھوٹ کہوں ؟
جو دیکھتی ہیں،وہ لڑکی جیسے صحرا کی ہو رات کوئی
جو دیکھتی ہیں، سونے جیسا ہے دل اس کا
اور باتوں میں سورج کی کرنوں جیسی بات کوئی

کوئی چاہے سمجھے جھوٹ انہیں
یہ باتیں ، سچی  باتیں ہیں
جھوٹ بھری اس دنیا میں ، وہ من کی سچی لڑکی ہے

Wednesday, January 19, 2011

   پہاڑ سی انا رکھنا
تو د ر د بھی سوا رکھنا

روش روش ہوا رکھنا
اور طاق میں دیا رکھنا

آج دل اندھیرا ہے
خواب ہی جلا رکھنا

زندگی سفر ہے تو
زاد سفر دعا رکھنا

واپسی نہ ہو پھر بھی
یا د  راستہ رکھنا

دل سنبھل جائے گا
آس آسرا رکھنا

آسمان کی عادت ہے
روشنی سجا رکھنا

دھوپ سی اداسی میں
شعر کی ردا رکھنا