Saturday, March 28, 2015


آنکھ میں دھوپ کا موسم تھا
 دل نگری میں رات سمے
راکھ تھی جلتے پھولوں کی
اور سرد نظر میں آنسو جمے
 کسے بتائیں اندرکے شور میں
 کیسے کیسے لفظ گمے
 مڑ کر دیکھا بات نہ کی
 مگر چلتے چلتے قدم تھمے
پہنچ گئے ہیں صدیوں تک
گرتے پڑتے چلتے لمحے
 تعبیروں کی کھوج میں ہیں
جاگتی آنکھیں خواب سہمے

Tuesday, March 3, 2015

عزمِ نو

ہم نئے زمانے کے مصور
اب اپنے موقلم سے
خود اپنی صورت سنوار لیں گے
ہم نئے زمانے کے ہنر کار
خود پر برستے ہر سنگ سے
خود اپنی مورت تراش لیں گے
ہم بے چہرگی کے ہر اک غم سے لڑیں گے
ہم رائیگاں نہیں مریں گے