Tuesday, December 16, 2014

یاد زمانوں کا سفر ہے۔۔۔

رات گئے جب  سکوت دل سے
 اداسی کلام کرتی ہے
محبت آسمانوں کے لئے زمین پر
آنسوؤں سے اہتمام کرتی ہے
محبت خود مجسسم دعا ہے
خانہ بدوشوں کی طرح سبز امید کو سنگ لئے
گھومتی پھرتی ہے ہاتھوں میں بے یقینی کے رنگ لئے
وقت کی گردش میں اسے جو ذرا وقت کبھی ملتا ہے
نیند کو کہتی ہے، " ہمیں غم سے ذرا فرصت ہے تو آؤ
امید کی پلکوں میں کوئی خواب پرو جاؤ!"
خواب آتے ہیں تو ساتھ اک آوارہ یا د  چلی آتی ہے
اور دل کو دھیرے سے تھپکتے ہوئے کہتی ہے
"ہم نے سفر کے زخم کبھی تمھارے سامنے کھولے ہی نہیں
اک گھر کی طلب میں ہم جو در بدر پھرا کرتے ہیں، سنو
سنو! تمھیں بھولے بھی نہیں"

یا د زمانوں کا سفر ہے
دیدہ نم ناک لئے، میں  بیٹھ رہتی ہوں اسی یا د  کنارے
میں  نے دیکھے ہیں اس یا د  کی آنکھوں سے ٹپکتے آنسو
جیسے دیکھے ہوں گھنی شب میں چمکتے تا رے

ہاں  ! یا د  بھی دُکھتی ہے
یا د  دُکھتی ہے جب پاؤں کے چھالوں کی طرح
نظر آتی ہے تمہاری صورت نرم اجالوں کی طرح
جیسے صحرا میں کوئی پانی کی جھلک سی دیکھے
جیسے بارش میں زمین بادل کی چمک سی دیکھے

سفر میں ہیں صدائیں میری
میں  نے دیکھی ہیں
تمہارے ساتھ چلا کرتی ہیں دعائیں میری
میں نے دیکھے ہیں،روشن دیے ،دل کے رستوں میں سجے
کچھ پھول سد ا مہکے سے رہتے ہیں
خزاں سے ڈرے ، درد کی بانہوں میں سجے
میں نے دیکھا ہے تمہیں
جیسے خوشبو کو لئے چلتی ہوا دیکھی ہے
جب سے دیکھا ہے تمہیں لگتا ہے
اپنے سر پہ آسمان کی ردا دیکھی ہے
میں نے دیکھا ہے تمہیں