(حصّہ دوم )
سچ کہتے ہو،میاں جولاہے ،جب کہتے ہو
سرد اور تنہا رات اندھیری
ایسی تاریکی میں بیٹھے،ہم سے پوچھو کیا بُنتے ہیں؟
کیا بنتے ہیں؟ میاں جولاہے! سن سکتے ہو؟
دھرتی کے سارے رنگوں سے
تم جو موسم بنتے ہو، چہرے بُنتے ہو
کرنیں اور شبنم بُنتے ہو
ان رنگوں میں اک رنگ ہے
راج ہنس کے پروں کے جیسا
بے پانی بادل کے جیسا
اس تاریکی میں چپ چپ بیٹھے
اس رنگ سے ،کسی مرنے والے کا کفن بُنتے ہیں
اپنا کفن خود بُن سکتے ہو؟
صبح سے لے کر شام ڈھلے تک
زندگی کا کر گھا پھیلائے
آس کا تا نا یاس کا با نا
اس تانےبانے میں الجھے
روز نیا اک دکھ بُنتے ہیں..
میاں جولاہے! تم جو بیٹھے سکھ چنتے ہو
روز نیا دکھ بُن سکتے ہو؟؟؟
یہ نظم سروجنی نائیڈو کی ایک نظم سے متاثر ہو کر لکھی گئی تھی
very well conceived and lyrically written,
ReplyDeleteThank you for always finding time to read and comment,Akhtar sahib..
ReplyDelete