Tuesday, May 10, 2016

​چند ادھورے جملے ہیں
چار سوکھے پتے ہیں
ہوا سے اڑتے ورقے ہیں
پیر میں کچھ رستے ہیں
جو کبھی چلے ہی نہیں
نم سا کچھ ہے آنکھوں میں
جستجو زمانوں کی
جاگتی سی نیندیں ہیں
اونگھتے سے سپنے ہیں
جو کبھی دِکھے ہی نہیں
گونجتے ہیں کانوں میں
لفظ جو سُنے ہی نہیں
یہ کوئی سودا نہیں
صرف بے قراری ہے
یہ کوئی غم بھی نہیں
بے خودی سی طاری ہے
آئینہ مقابل ہے
خود سے کلام جاری ہے
چار دن کی عمر میں
آرزو ملی ہی نہیں
بس اک انتظار ہے جو
دل پہ اتنا بھاری ہے ۔۔