Tuesday, May 10, 2016

​چند ادھورے جملے ہیں
چار سوکھے پتے ہیں
ہوا سے اڑتے ورقے ہیں
پیر میں کچھ رستے ہیں
جو کبھی چلے ہی نہیں
نم سا کچھ ہے آنکھوں میں
جستجو زمانوں کی
جاگتی سی نیندیں ہیں
اونگھتے سے سپنے ہیں
جو کبھی دِکھے ہی نہیں
گونجتے ہیں کانوں میں
لفظ جو سُنے ہی نہیں
یہ کوئی سودا نہیں
صرف بے قراری ہے
یہ کوئی غم بھی نہیں
بے خودی سی طاری ہے
آئینہ مقابل ہے
خود سے کلام جاری ہے
چار دن کی عمر میں
آرزو ملی ہی نہیں
بس اک انتظار ہے جو
دل پہ اتنا بھاری ہے ۔۔

Saturday, March 28, 2015


آنکھ میں دھوپ کا موسم تھا
 دل نگری میں رات سمے
راکھ تھی جلتے پھولوں کی
اور سرد نظر میں آنسو جمے
 کسے بتائیں اندرکے شور میں
 کیسے کیسے لفظ گمے
 مڑ کر دیکھا بات نہ کی
 مگر چلتے چلتے قدم تھمے
پہنچ گئے ہیں صدیوں تک
گرتے پڑتے چلتے لمحے
 تعبیروں کی کھوج میں ہیں
جاگتی آنکھیں خواب سہمے

Tuesday, March 3, 2015

عزمِ نو

ہم نئے زمانے کے مصور
اب اپنے موقلم سے
خود اپنی صورت سنوار لیں گے
ہم نئے زمانے کے ہنر کار
خود پر برستے ہر سنگ سے
خود اپنی مورت تراش لیں گے
ہم بے چہرگی کے ہر اک غم سے لڑیں گے
ہم رائیگاں نہیں مریں گے

Tuesday, December 16, 2014

یاد زمانوں کا سفر ہے۔۔۔

رات گئے جب  سکوت دل سے
 اداسی کلام کرتی ہے
محبت آسمانوں کے لئے زمین پر
آنسوؤں سے اہتمام کرتی ہے
محبت خود مجسسم دعا ہے
خانہ بدوشوں کی طرح سبز امید کو سنگ لئے
گھومتی پھرتی ہے ہاتھوں میں بے یقینی کے رنگ لئے
وقت کی گردش میں اسے جو ذرا وقت کبھی ملتا ہے
نیند کو کہتی ہے، " ہمیں غم سے ذرا فرصت ہے تو آؤ
امید کی پلکوں میں کوئی خواب پرو جاؤ!"
خواب آتے ہیں تو ساتھ اک آوارہ یا د  چلی آتی ہے
اور دل کو دھیرے سے تھپکتے ہوئے کہتی ہے
"ہم نے سفر کے زخم کبھی تمھارے سامنے کھولے ہی نہیں
اک گھر کی طلب میں ہم جو در بدر پھرا کرتے ہیں، سنو
سنو! تمھیں بھولے بھی نہیں"

یا د زمانوں کا سفر ہے
دیدہ نم ناک لئے، میں  بیٹھ رہتی ہوں اسی یا د  کنارے
میں  نے دیکھے ہیں اس یا د  کی آنکھوں سے ٹپکتے آنسو
جیسے دیکھے ہوں گھنی شب میں چمکتے تا رے

ہاں  ! یا د  بھی دُکھتی ہے
یا د  دُکھتی ہے جب پاؤں کے چھالوں کی طرح
نظر آتی ہے تمہاری صورت نرم اجالوں کی طرح
جیسے صحرا میں کوئی پانی کی جھلک سی دیکھے
جیسے بارش میں زمین بادل کی چمک سی دیکھے

سفر میں ہیں صدائیں میری
میں  نے دیکھی ہیں
تمہارے ساتھ چلا کرتی ہیں دعائیں میری
میں نے دیکھے ہیں،روشن دیے ،دل کے رستوں میں سجے
کچھ پھول سد ا مہکے سے رہتے ہیں
خزاں سے ڈرے ، درد کی بانہوں میں سجے
میں نے دیکھا ہے تمہیں
جیسے خوشبو کو لئے چلتی ہوا دیکھی ہے
جب سے دیکھا ہے تمہیں لگتا ہے
اپنے سر پہ آسمان کی ردا دیکھی ہے
میں نے دیکھا ہے تمہیں






Monday, February 13, 2012

زندگی

زندگی ریت سے برتن بنانے کی
ایک بے سود کاوش ہے

Wednesday, December 14, 2011

روشن دریچے

رات میری دہلیز پر  آ بیٹھی ہے، اسے بھگا دو
نیند آنکھوں میں سو گئی ہے، اسے جگا دو

قطرہ قطرہ سم میں بھگو کر جو لفظ لکھے تھے، انھیں مٹا دو
موہوم منظر، چھلکتی یادیں، بیدار سوچیں، انھیں سلا دو

مجھے بتا دو
جن چہروں پر نظر کروں میں انہی پر کانٹے کیوں اگ آتے ہیں
ہوا میں تیرتے ہیں لفظ سارے
پکڑنے بیٹھوں تو فنا کی گھا ٹی اترتے جاتے ہیں
پیروں  میں گردش کا سفر ہے جاری
وجہ بتا دو

آوازیں زبان کی تلاش میں چکراتی ہیں، انھیں کوئی راہ دو
برستی دھوپ میں وہ جو چڑیا اداس بیٹھی ہے ، اسے ہنسا دو

دہلیز پر اندھیرے کے قدم روکو ،  اسے کہو کہ  ہمیں بھلا دو
روشنی دریچے میں آ رکی ہے، اسے جگہ دو
اسے بلا دو

Sunday, August 21, 2011

ایک بھولی بسری نظم

ایک بھولی بسری نظم
(اور کچھ بھولی بسری سہیلیاں )

اس بستی میں وہ لڑکی رہتی تھی
پھولوں سے باتیں جو کرتی تھی
میں نے کب اس کو دیکھا تھا
ہاں اوروں سے میں سنا کرتی تھی
کہ پیروں میں بادل کا ٹکڑا تھا
ہاتھوں میں چاند لیے پھرتی تھی
آنکھوں میں جگنو چمکا کرتے تھے
چہرے پر دھنک سجی ہوتی تھی
سب کے جیسی ہو کر بھی جو
سب سے الگ ہی لگتی تھی
پھر اک دن میں نے بھی اسے  دیکھا تھا
صبح تھی شاید دوپہر ڈھلی تھی
بادل برس کر بکھر گئے تھے
دھوپ بھی نکھری نکھری سی تھی
سر پر دھوپ کا آنچل تھا
آنکھوں میں ساون کی جھڑی تھی
جگنو چمک اٹھے تھے پھر سے
جانے میں نے کیا بات کہی تھی 
اندھیرے جنگل میں دیے کے جیسی
کیسی روشن اس کی ہنسی تھی

برسوں پہلے کی اک لڑکی کی
مجھ کو بھولی بسری یاد آئی تھی
سب سے الگ ہو کر بھی جو
سب کے جیسی ہی لگتی تھی
اندر ساون ٹھہر گئے تھے
اور آنکھ میں جس کی ریت بسی تھی
بادل مل کر رو دیتے تھے
جب اس کے اندر بارش ہوتی تھی
پھر دن سے پہلے دن نکلا تھا
وہ شام سے پہلے ڈوب گئی تھی
ہاتھوں میں سورج لے کر
وہ بھی یونہی ہنسا کرتی تھی    

Saturday, May 28, 2011

می رقصم

 
تم نے جلتے دیے کو دیکھا ہے ؟
جب ہوا کی آہٹ سے
دیے کی لو لرزتی ہے 
بجھنے سے ڈرتی ہے.. 
تم نے بجھتے دیے کو دیکھا ہے ؟
بجھنے سے پہلے جب 
اس کی لو بھڑکتی ہے 
کیسے رقص کرتی ہے

Saturday, May 21, 2011

بارش کے رنگ

ٹوٹتے بنتے خواب اور بارش کی آواز
مدھر سی اک لے پر جلتا بجھتا سا ز
بارش کے دو رنگ
الگ الگ آہنگ
اک بارش کے اِس پا ر  ،اک بارش کے اُس پا ر
بارش کے اِس پا ر ، گئے دنوں کی اڑتی گرتی دھول
آنے والے لمحوں کے کچھ کانٹے اور ببول
اور بارش کے اُس پا ر  ؟
بارش کے اُس پا ر، کچھ بیلے کے پھول!!

Tuesday, April 12, 2011

خوف

میں  خواب میں سیڑھیاں دیکھتی ہوں
زینہ د ر زینہ
بہت اوپر ، محدود  سے لا محدود تک جاتی ہوئی
میں اپنے اندر ان  پر چڑھنے کی ہمت  نہیں پاتی
مگر کسی ایک سیڑھی پر کھڑے ہوے
میں جب واپس اترنا چاہتی ہوں
تو میرے پیر ڈگمگا جاتے ہیں
اور گرنے کے خوف سے
میری آنکھ کھل جاتی ہے