Wednesday, December 14, 2011

روشن دریچے

رات میری دہلیز پر  آ بیٹھی ہے، اسے بھگا دو
نیند آنکھوں میں سو گئی ہے، اسے جگا دو

قطرہ قطرہ سم میں بھگو کر جو لفظ لکھے تھے، انھیں مٹا دو
موہوم منظر، چھلکتی یادیں، بیدار سوچیں، انھیں سلا دو

مجھے بتا دو
جن چہروں پر نظر کروں میں انہی پر کانٹے کیوں اگ آتے ہیں
ہوا میں تیرتے ہیں لفظ سارے
پکڑنے بیٹھوں تو فنا کی گھا ٹی اترتے جاتے ہیں
پیروں  میں گردش کا سفر ہے جاری
وجہ بتا دو

آوازیں زبان کی تلاش میں چکراتی ہیں، انھیں کوئی راہ دو
برستی دھوپ میں وہ جو چڑیا اداس بیٹھی ہے ، اسے ہنسا دو

دہلیز پر اندھیرے کے قدم روکو ،  اسے کہو کہ  ہمیں بھلا دو
روشنی دریچے میں آ رکی ہے، اسے جگہ دو
اسے بلا دو

2 comments:

  1. beautiful sensebility موہوم منظر، چھلکتی یادیں، آوازیں زبان کی تلاش میں, برستی دھوپ

    ReplyDelete