Wednesday, March 30, 2011

میاں جولاہے ! کیا بنتے ہو؟

(حصّہ دوم )

سچ کہتے ہو،میاں جولاہے ،جب کہتے ہو
سرد اور تنہا رات اندھیری
ایسی تاریکی میں  بیٹھے،ہم سے پوچھو کیا بُنتے ہیں؟
کیا بنتے ہیں؟ میاں جولاہے! سن سکتے ہو؟
دھرتی کے سارے رنگوں سے
تم جو موسم بنتے ہو، چہرے بُنتے ہو
کرنیں اور شبنم بُنتے ہو
ان رنگوں میں اک رنگ ہے
راج ہنس کے پروں کے جیسا
بے پانی بادل کے جیسا
اس تاریکی میں چپ چپ بیٹھے
اس رنگ سے ،کسی مرنے والے کا کفن بُنتے ہیں
اپنا کفن خود بُن سکتے ہو؟

صبح سے لے کر شام ڈھلے تک
زندگی کا کر گھا پھیلائے
آس کا تا نا یاس کا با نا
اس تانےبانے میں الجھے
روز نیا اک دکھ  بُنتے ہیں..
میاں جولاہے! تم جو بیٹھے سکھ چنتے ہو
روز نیا دکھ بُن سکتے ہو؟؟؟
 
یہ نظم سروجنی نائیڈو کی ایک نظم سے متاثر ہو کر لکھی گئی تھی

Tuesday, March 8, 2011

کسک

ہنسی حلقوم میں پھنستی ہے
دل ہے یا زخم ہے کوئی
رہ رہ کے ٹیس اٹھتی ہے