ایک بھولی بسری نظم
(اور کچھ بھولی بسری سہیلیاں )
اس بستی میں وہ لڑکی رہتی تھی
پھولوں سے باتیں جو کرتی تھی
میں نے کب اس کو دیکھا تھا
ہاں اوروں سے میں سنا کرتی تھی
کہ پیروں میں بادل کا ٹکڑا تھا
ہاتھوں میں چاند لیے پھرتی تھی
آنکھوں میں جگنو چمکا کرتے تھے
چہرے پر دھنک سجی ہوتی تھی
سب کے جیسی ہو کر بھی جو
سب سے الگ ہی لگتی تھی
پھر اک دن میں نے بھی اسے دیکھا تھا
صبح تھی شاید دوپہر ڈھلی تھی
بادل برس کر بکھر گئے تھے
دھوپ بھی نکھری نکھری سی تھی
سر پر دھوپ کا آنچل تھا
آنکھوں میں ساون کی جھڑی تھی
جگنو چمک اٹھے تھے پھر سے
جانے میں نے کیا بات کہی تھی
اندھیرے جنگل میں دیے کے جیسی
کیسی روشن اس کی ہنسی تھی
برسوں پہلے کی اک لڑکی کی
مجھ کو بھولی بسری یاد آئی تھی
سب سے الگ ہو کر بھی جو
سب کے جیسی ہی لگتی تھی
اندر ساون ٹھہر گئے تھے
اور آنکھ میں جس کی ریت بسی تھی
بادل مل کر رو دیتے تھے
جب اس کے اندر بارش ہوتی تھی
پھر دن سے پہلے دن نکلا تھا
وہ شام سے پہلے ڈوب گئی تھی
ہاتھوں میں سورج لے کر
وہ بھی یونہی ہنسا کرتی تھی
(اور کچھ بھولی بسری سہیلیاں )
اس بستی میں وہ لڑکی رہتی تھی
پھولوں سے باتیں جو کرتی تھی
میں نے کب اس کو دیکھا تھا
ہاں اوروں سے میں سنا کرتی تھی
کہ پیروں میں بادل کا ٹکڑا تھا
ہاتھوں میں چاند لیے پھرتی تھی
آنکھوں میں جگنو چمکا کرتے تھے
چہرے پر دھنک سجی ہوتی تھی
سب کے جیسی ہو کر بھی جو
سب سے الگ ہی لگتی تھی
پھر اک دن میں نے بھی اسے دیکھا تھا
صبح تھی شاید دوپہر ڈھلی تھی
بادل برس کر بکھر گئے تھے
دھوپ بھی نکھری نکھری سی تھی
سر پر دھوپ کا آنچل تھا
آنکھوں میں ساون کی جھڑی تھی
جگنو چمک اٹھے تھے پھر سے
جانے میں نے کیا بات کہی تھی
اندھیرے جنگل میں دیے کے جیسی
کیسی روشن اس کی ہنسی تھی
برسوں پہلے کی اک لڑکی کی
مجھ کو بھولی بسری یاد آئی تھی
سب سے الگ ہو کر بھی جو
سب کے جیسی ہی لگتی تھی
اندر ساون ٹھہر گئے تھے
اور آنکھ میں جس کی ریت بسی تھی
بادل مل کر رو دیتے تھے
جب اس کے اندر بارش ہوتی تھی
پھر دن سے پہلے دن نکلا تھا
وہ شام سے پہلے ڈوب گئی تھی
ہاتھوں میں سورج لے کر
وہ بھی یونہی ہنسا کرتی تھی