Sunday, October 31, 2010

میری آنکھیں ہیں سمندر
اور تیرا درد ہے لہر لہر

سامنے رکھی چیزوں کو
ڈھونڈا ہم نے ادھر ادھر

گنتی کے کچھ لمحوں میں
بیت گئی ساری ہی عمر

جن کا  گھر میں کوئی نہیں
ان کا نہیں ہے کوئی گھر

ٹہر  گیا ہے آنکھوں میں
پچھلے موسم کا ایک منظر

زرہ زرہ جوڑیں گے
اپنی ذات میں ایک شہر

پلکوں پلکوں چن لیں گے
اس کی راہ  کا ہر پتھر

آپ اپنے ہم دشمن ہیں
ایسے میں کیا تیرا ذکر

گھر کی راہ دکھاتا ہے
ایک مسا فر  د ر  بد ر

منزل منزل بھٹکا تا ہے
اپنے اند ر ایک سفر

کوئی پکا رے جاتا ہے
میرے اندر صبر ! صبر !

دھوپ کی نگری میں لوگو !
ہر ایک سوچ ہوئی بنجر
ساری رات جگاتا ہے 
کسی ان ہونی کا ڈ ر

وقت نے تقسیم کئے
ٹوٹے خواب نظر نظر

یا د میری دلاءے گا
دھند میں لپٹا  ہر شجر

کسی کی واپسی کی آہٹ ہے
اے  زندگی ! ٹہر ! ٹہر

Thursday, October 28, 2010


یہاں ہر شے آنی  جانی ہے
جیسے دریا کا بہتا پانی ہے

وقت کی آنکھیں بھیگ گئی ہیں
بات کوئی ان جانی  ہے

لمحے گم ہیں صدیاں حاضر
اتنی سی میری کہانی ہے 

شام سمے ہے راستہ لمبا
اور دکھ راہ کی نشانی ہے

اندر ٹہر گئے آنسو 
ہنسی میں پھر بھی روانی ہے

سنآٹے کے شور میں گم
ان ہونی سی ویرانی ہے

کس کو بھول گیا یہ دل
حیرانی ہے حیرانی ہے

کیوں دل کی مانوں بات کوئی
کب  اس نے میری مانی ہے

اپنے  آپ سے ملنے کی
خواہش بڑی پرانی ہے

کس کی ہار اورکیسی جیت
دل نے ایک ریت نبھانی ہے

چڑیاں راستہ بھول گئیں ہیں
پیڑوں پر ویرانی ہے 

Thursday, October 14, 2010


ہر شجر پر ثمر نہیں ہوتا
صرف زندہ رہنا ہنر نہیں ہوتا

ہر جگہ ہوتا ہے کدھر نہیں ہوتا
مجھے خبر ہے خدا بے خبر نہیں ہوتا

کوئی  تو ہے جو میرے ہر جانب
موجود ہوتا ہے  مگر نہیں ہوتا

ان کے قدموں میں دنیا ہوتی ہے
جن کے کاندھوں پر سر نہیں ہوتا

راہ میں پڑاؤ ہو تو سکتا ہے
راہ میں لیکن گھر نہیں ہوتا

آخری دیا رہ گیا بجھانے کو
ایک پہاڑ ہے جو سر نہیں ہوتا

منزل نہ سہی راستہ ضروری ہے
بے سمت چلنا سفر نہیں ہوتا